رواں سال بھی سندھ میں میٹرک اور انٹر کے سالانہ امتحانات مستقل ناظم امتحانات، سیکریٹریز اور آڈٹ افسران کے بغیر ہوں گے۔ سندھ بھر میں میٹرک اور انٹر کی سطح پر سندھ کے 8 تعلیمی بورڈز ہیں جن میں 10 لاکھ طلبہ میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں شرکت کریں گے صرف کراچی سے ہی چار لاکھ امیدوار میٹرک کے امتحانات میں شرکت کریں گے۔ تاہم سندھ کے ان 8 بورڈز میں گزشتہ چھ برس سے ایک بھی مستقل ناظم امتحانات ، سیکریٹری اور آڈٹ افسر نہیں جب کہ 5 بورڈز مستقل چیرمین سے محروم ہیں جن میں سکھر بورڈ میں 19 گریڈ کے رفیق احمد پلھ قائم مقام چیئرمین ہیں جن کو حالی ہی میں حیدرآباد بورڈ کے چئیرمین کے عہدے کا بھی اضافی چارج دے رکھا ہے۔ سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے چئیرمین ڈاکٹر مسرور شیخ ریٹائر ہونے اور مدت مکمل ہونے کے باوجود 8 برس سے چیرمین کے عہدے پر موجود ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری کے شہر نواب شاہ میں قائم تعلیمی بورڈ کے چئیرمین ڈاکٹر فاروق حسن گزشتہ تین برس سے قائم مقام چئیرمین ہیں اور وہ بنیادی طور پر سرکاری جامعہ کے وائس چانسلر ہیں۔ میرپورخاص بورڈ کے 65 سالہ چیئرمین پروفیسر برکات حیدری کی مدت دو برس قبل مکمل ہوچکی تاہم تاحال وہ چئیرمین کے عہدے پر موجود ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جب تعلیمی بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی گورنر سندھ کے پاس ہوتی تو بورڈز میں چئیرمین، کنٹرولرز اور سیکریٹریز مستقل بنیادوں پر تعینات ہوتے رہتے تھے جب کنٹرولنگ اتھارٹی وزیر اعلیٰ کو منتقل ہوئی تو ایڈھاک ازم کا آغاز ہوا لیکن صوبائی وزیر کو کنٹرولنگ اتھارٹی کی منتقلی نے میرٹ ہی ختم کردیا۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ تلاش کمیٹی نے سیکریٹریز اورکنٹرولرز کے امیدواروں کے انٹرویوز کیئے تو انھیں تین اہل امیدوار ہی مل سکے لیکن کنٹرولنگ اتھارٹی نے میرٹ پر آنے والے ان تین امیدواروں اشفاق شاہ، زرینہ راشد اور ڈاکٹر نوید احمد گجر کو بھی بھرتی نہیں کیا۔ اسی طرح پانچ تعلیمی بورڈز کے چئیرمین کے عہدوں کے لئے سرچ کمیٹی نے میرٹ پر اہل امیدواروں کا انتخاب کیا اور پانچ ٹاپ امیدواروں نعمان احسن، فضلیت مہدی، قاضی عارف علی، رفیعہ بانو اور کرنل (ر) علمدار کی چیرمین بورڈ لگانے کی سفارش کی مگر کنٹرولنگ اتھارٹی نے نام انٹیلجنس ایجنسیوں سے کلئیر کرانے کی شرط رکھی مگر ان ناموں میں بھی گڑ بڑ کی اوردو ٹاپ امیدواروں کو اس میں سے نکال کر تیسرے نمبر پر ٰآنے والے دو امیدواروں کو شامل کرکے انٹلیجس ایجنسیوں کو نام بھیجے تو ایجنسیوں نے ایک ہفتے میں نام کلیئر بھی کردیئے جس کے بعد انھیں بھرتی کے خط جاری کرنے چاہیے تھے مگر کنٹرولنگ اتھارٹی کو میرٹ پر آنے والے تین نام بھی برداشت نہ ہوسکے اور بھرتی کے خط نکالنے میں جان بوچھ کر تاخیر کی گئی تاکہ عدالت میں رٹ پٹیشن دائر ہو اور چئیرمین بورڈز کی تقرری کو روکا جاسکے اور یہی ہوا۔ جس امیدوار نے رٹ دائر کی نہ تو وہ چیئرمین کے عہدے کا امیدوار تھا نہ اس کا بورڈ سے کوئی تعلق تھا اس طرح سندھ کے پانچ تعلیمی بورڈز مستقل چئیرمین سے جب کہ آٹھ تعلیمی بورڈز مستقل ناظم امتحانات اور سکریٹریز سے محروم ہیں۔ سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرار ز ایسوسی ایش کے مرکزی صدر منور عباس نے کہا کہ محکمہ بورڈز و جامعات سندھ کےتعلیمی بورڈز میں مستقل ناظم امتحانات، سکریٹریز اور آڈٹ افسران اور چیرمین کے تقرر میں مکمل ناکام ہے جس کی وجہ سے بورڈز میں کرپشن عروج پر ہے اور تعلیم تباہ ہورہی ہے بہتر یہ ہے کہ بورڈز و جامعات کا محکمہ ختم کر کے تعلیمی بورڈز محکمہ کالج ایجوکیشن کو اور جامعات ہائر ایجوکیشن کمیشن کو دے دی جائیں تاکہ کچھ بہتری آسکے۔
