کراچی،برلن – افغانستان میں طالبات کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کیخلاف افغان اساتذہ بھی سراپا احتجاج ہیں، امریکی اخبار کے مطابق ایک درجن سے زائد مرد افغان اساتذہ احتجاجاً مستعفی ہوگئے ہیں،ترکی نے طالبات پر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ انسانی ہے نہ اسلامی ، ترقی یافتہ ممالک کے گروپ ’’جی سیون‘‘ نے افغانستان میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم سے روکنے کے فیصلے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دے دیا ہے،امریکی وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ طالبات پر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی سے طالبان کو عالمی سطح پر اپنی حکومت تسلیم کروانے کی کوششوں میں نقصان ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق کابل یونیورسٹی کے پروفیسر عبیداللہ وردک نے ٹوئٹر پرا پنے ایک بیان میں اپنے استعفے سے متعلق بتایا کہ وہ ایسی جگہ کام جاری نہیں رکھ سکتے جہاں مقتدر حلقے باصلاحیت لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کریں ، دوسری جانب کابل میں چند خواتین پر مشتمل گروپ نے طالبات کے یونیورسٹی میں تعلیم پر پابندی کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے ۔ افغانستان کیلئے امریکی ناظم الامور کرن ڈیکر نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبات کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کیخلاف احتجاج اور استعفے اتحاد کا مظاہرہ ہے ، کابل کے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اس فیصلے کو واپس لیں ، ترکی نے بھی طالبان سے طالبات پر یونیورسٹی کے دروازے بند کرنے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کردیا ہے ، ترک وزیرخارجہ مولود چاوش اوغلو کا کہنا ہے کہ خواتین پر یونیورسٹی جانے کی پابندی کا فیصلہ انسانی ہے اور نہ ہی اسلامی ، انہوں نے بتایا کہ ہماری نظر میں یہ فیصلہ غلط ہے ، ان شاء اللہ طالبان یہ فیصلہ واپس لے لیں گے ، انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر خواتین کی تعلیم سے انسانیت کو کیا نقصان ہوسکتا ہے ، ’’ جی 7 ‘‘ اور یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے ساتھ دیگر ممالک نے بھی طالبان کی جانب سے یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کے داخلہ پر پابندی لگانے اور افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی جانب سے اپنے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو استعمال کرنے کے امور پر دیگر سخت پابندیاں لگانے کے حالیہ فیصلوں کی شدید مذمت کی ہے۔یورپی یونین نے اپنے بیان میں کہا کہ طالبان ایسے اقدامات سے خود کو افغان آبادی اور عالمی برادری سے مزید الگ تھلگ کر رہے ہیں۔ ای یو نے طالبان سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ بھی کردیا۔
