’اُس نے میرے منھ میں بندوق رکھ کر کہا اگر بکواس بند نہ کی تو گولی مار دوں گا‘

اس تحریر کے کچھ حصے بعض قارئین کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ خواتین کے تحفظ کے لیے ان کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔

منصوبہ یہی تھا کہ سب 22 دسمبر کو صبح نو بجے کابل یونیورسٹی کے باہر جمع ہوں گے۔

26 سال کی عائشہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے سوچا تھا ہم افغانستان میں خواتین کے تعلیم کے حق کے لیے مظاہرے کریں گے۔‘

وہ ایک بینک میں کام کرتی تھیں۔ مگر گذشتہ سال جب طالبان اقتدار میں آئے تو انھوں نے خواتین کی ملازمتوں پر پابندی لگا دی۔ اس کے فوراً بعد عائشہ کو نوکری سے نکال دیا گیا اور وہ بے روزگار ہو گئیں۔

نوکری سے فراغت کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنی تعلیم پر دھیان دیں گی چنانچہ انھوں نے کابل یونیورسٹی میں ماسٹرز کی ڈگری میں داخلہ لیا۔ ان کا داخلہ تو ہو گیا مگر اس ساتھ ہی ملک بھر کی خواتین پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند کر دیے گئے۔

عائشہ کہتی ہیں کہ انھیں اس پر بہت غصہ آیا اور انھوں نے سڑکوں پر نکل کر مظاہروں میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جب میں مظاہرے کے مقام پر پہنچی تو وہاں پہلے سے طالبان کی بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ ایسا تھا جیسے وہاں ایک فوجی آپریشن کیا جا رہا ہو۔‘

’ادھر طالبان کی خواتین سپاہی بھی موجود تھیں۔ ایک نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور کہا: میں آپ کو گرفتار کر رہی ہوں اور آپ کو اس وقت تک حراست میں رکھوں گی جب تک آپ کو مظاہرے میں شریک ہونے پر افسوس نہیں ہوتا۔‘

مگر ان خطرات کے باوجود درجنوں خواتین نے مظاہروں میں حصہ لیا۔ عائشہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مظاہرے میں کم از کم 30 خواتین تھیں۔

قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی فرشتہ بھی اپنی سابقہ یونیورسٹی کے مظاہرے میں شریک ہونے آئی تھیں۔ ’جب میں نے بڑی گاڑیوں پر ہتھیاروں کے ساتھ طالبان کے اہلکاروں کو دیکھا تو میں حیران رہ گئی۔ تاہم اس نے مجھے مزید پُرجوش کر دیا۔‘

’ہم قلم کے ساتھ مارچ کر رہے تھے مگر ان کے پاس تو بڑی بندوقیں تھیں۔ مجھے اس حقیقت نے توانائی بخشی کہ وہ طالبان ہیں اور محض احتجاج کرتی خواتین سے ڈرے ہوئے ہیں۔‘

یاد رہے کہ رواں ہفتے طالبان نے ملک بھر میں خواتین کے یونیورسٹی جانے پر پابندی عائد کر دی ہے جس کے بعد کئی مظاہروں کی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جن میں خواتین کو ’تعلیم۔ ملازمت۔ آزادی۔ سب یا کچھ نہیں‘ کے نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

تاہم فرشتہ کہتی ہیں کہ چند لمحوں بعد طالبان کے سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔

’پہلے تو انھوں نے دو صحافیوں کو فوجی گاڑی میں بٹھایا اور انھیں لے گئے۔ پھر طالبان فوجیوں نے ہمیں بندوقوں سے ہانکنا شروع کر دیا۔‘

’انھوں نے ہماری کچھ بہنوں کو اپنے ہتھیاروں سے مارا بھی۔‘

بعض مظاہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کے سکیورٹی اہلکاروں نے لوگوں کے موبائل فون چھینے اور زمین پر پھینک کر توڑ دیے تاکہ کوئی ویڈیو نہ بنا سکے۔

کئی فوجیوں نے فرشتہ اور ان کی ساتھیوں کی طرف رُخ کیا۔ ’انھوں نے ہمارے گروہ کو دیوار سے لگایا اور بندوقیں تان لیں۔ انھوں نے ہم سے کہا کہ ’اگر آواز نکلی تو ایک ایک کر کے ہم سب کے سر پھاڑ دیں گے۔‘

’ایک فوجی نے میرا ہاتھ پکڑا اور اس قدر زور سے میری کلائی موڑی کہ مجھے پورے جسم میں شدید درد کا احساس ہوا۔‘

’اس نے میرے منھ میں بندوق رکھی اور کہا بکواس بند کرو ورنہ گولی مار دوں گا۔‘

کئی مظاہرین نے کہا کہ گروہ سے دو خواتین کو الگ کیا گیا۔ ایک کو طالبان کے مرد سکیورٹی اہلکار جبکہ دوسری کو خواتین اہلکار لے گئیں۔

فرشتہ نے کہا کہ اُس وقت سے دونوں میں سے کسی خاتون سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔

جائے وقوعہ سے تین صحافیوں سمیت کم از کم پانچ خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ خیال ہے کہ دو کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم بی بی سی اس کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں کر سکا۔

طالبان کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر مولوی ندا محمد ندیم نے سرکاری ٹی وی پر اعلان کرتے ہوئے وہ چار وجوہات بیان کیں جن کی بنیاد پر انھوں نے یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی لگائی ہے۔

انھوں نے دعوے کیے کہ طالبات محرم مرد کے بغیر یونیورسٹیوں میں آتی ہیں، طالبات شرعی طریقے سے سر نہیں ڈھانپتیں، مرد و خواتین طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ گھلتے ملتے ہیں جبکہ انجینیئرنگ اور زراعت جیسے شعبوں میں موجودگی خواتین کی عزت و وقار کے لیے موزوں نہیں۔

اگست 2021 میں غیر ملکی افواج کے انخلا اور اقتدار میں واپسی پر طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ نرمی برتیں گے۔ تاہم وہ مسلسل ملک میں خواتین کے حقوق اور آزادی پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔

فرشتہ کے مطابق وہ نہ صرف خود کے لیے بلکہ اپنی 14 سال کی بہن کے مستقبل کے لیے بھی لڑ رہی ہیں۔ سیکنڈری سکولوں میں لڑکیوں پر پابندی کے بعد سے وہ مقامی سطح پر تعلیمی مرکز سے کورس کی کلاسز لے رہی ہیں۔

تاہم منگل کو طالبان حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ نجی تعلیمی مراکز میں بھی خواتین اور لڑکیاں نہیں پڑھ سکیں گی۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس حکم پر تب تک عملدرآمد جاری رہے گا جب تک لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مناسب ماحول نہیں بنا لیا جاتا۔

فرشتہ نے کہا ہے کہ ’ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہاں حالات کس قدر مشکل ہیں۔ مگر ہم سڑکوں پر آ کر اپنے حقوق کی جنگ جاری رکھیں گے۔‘