درہ آدم خیل میں پاکستان کا ’’وائلڈ ویسٹ‘‘کہا جاتا ہے ۔وہا ں ہر قسم کے اسلحے کے ساتھ لائبریری بھی پھلنے پھولنے لکی ہے ۔یہ انتہائی معروف اسلحے کا گڑھ اور نجی منڈی ہے ۔جہاں خود کار اسلحے کے علاوہ طیارہ شکن توپیں تک فروخت ہوتی ہے ۔لیکن حصول علم کی خواہش وہاں کے اسلحہ سوداگروں اور بیوباریوں میں بھی ہے ۔ایک تاجر محمد جہاں زیب اپنی علمی تشنگی پوری کرنے کےلیے وقت بچاکر دبے قدموں سے مقامی لائبریری (کتب خانہ)کا رخ کرلیتا ہے ۔28سالہ جہاں زیب کے مطابق یہ اس کا پسند یدہ مشغلہ ہے ۔اس کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ علاقے میں ای ک لائبریری بھی ہو ۔جور پوری بھی ہوئی ۔درہ آدم خیل انتہائی قدامت پرست قبائلی علاقہ ہے ۔جہاں عسکریت پسندی اور منشیات کے کاروبار کی وجہ سے پاکستان کا ’’وائلڈ ویسٹ ‘‘کہلایا ہے ۔یہ علاقہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان رہ گزر ہے ۔یہ عرصہ تک اسلحے کی بلیک مارکیٹ کہلاتی رہی ۔جہاں امریکی طرز کی رائفلیں ، نقلی ریوالور، پستول ، کلا شنکوف دیگر ہلکا اسلحہ بنایا جاتا رہا ۔لیکن درہ آدم خیل سے پیدل فاصلے پر ایک لائبریری بھی پھل پھول رہی ہے جہاں ورجینیا وولف کی کلا سیکی ناول ’’مسز ڈلووے‘بھی دستیاب ہے ۔یہاں سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے خطابات اور خطوط بھی کتابی شکل میں دستیاب ہیں ۔ابتداء میں مقامی لوگوں نے کتب بینی کی حوصلہ شکنی کی اور کہا اسلحے کے گڑھ درہ آدم خیل میں کتابوں کا کیا کام لیکن لائبریری کے بانی36سالہ راج محمد کے مطابق اس کتب خانے کے ممبرز کی تعداد 500سے زائد ہے ۔2018ء میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے سے قبل یہ ایک نیم خود مختار علاقہ تھا ۔جہاں غربت ،سرداروں اور قوانین کا راج تھا ، قبائل میں آپس کے جھگڑے عام تھے۔تعلیمی اداروں اور اسکولوں کی شدید قلت تھی ۔لیکن رضاکارانہ لائبریری کی خدمات انجام دینے والے 33سالہ شفیع اللہ آفریدی نے بتایا کہ اب روئیے تبدیل ہونے لگے ہیں ۔خصوصاََنئی نسل اب ہتھیار کے بجائے حصول علم میں دلچسپی رکھتی ہے ۔لوگوں نے اطراف کے علاقوں سے ڈاکٹر اور انجینئر بنتے دیکھ کر اب اپنے بچوں کو بھی تعلیم دیلارہے ہیں ۔لیکن آفریدی کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں اسلحہ ساتھ لانے سے روکنے میں بڑی جدوجہدکا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں لائبریری کلچر وجود نہیں رکھتا ایک مقامی دانشور اور شاعر محمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے درہ آدم خیل میں ا سلحے کے ڈھیر پر لائبیری کی بنیاد رکھی ۔جو ایک کمرے پر مشتمل تھی لیکن ایک سال اور مقامی آبادی کی مددسے ایک منزلہ عمارت میں منتقل ہوگئی ۔یہ عمارت 65سالہ سردار عرفان اللہ خان نے عطیہ میں دی ۔انہوں نے کہا کہ خوبصورتی ہتھیاروں میں نہیں تعلیم کے زیور میں ہے ۔لڑکیاں بھی اسکول جانے لگی ہیں ۔ان میں 9سالہ مناہل جہانگیر اور 5سالہ حریم سعید بھی شامل ہیں ۔حریم نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ ڈاکٹر بن کر اپنی ماں کی خواہش پوری کرے گی ۔
