افغانستان: طالبان نے خواتین کے این جی اوز کے لیے کام کرنے پر بھی پابندی لگا دی

افغانستان میں طالبان کی جانب سے غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے لیے کام کرنے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد ملک میں خواتین کی آزادی کو مزید محدود کر دیا گیا ہے۔

اسلام پسند حکمرانوں نے کہا کہ این جی او کی خواتین ملازمین حجاب نہ پہن کر شریعت کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔

اس سے پہلے طالبات کے یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ جو طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین کی تعلیم پر تازہ ترین پابندی ہے۔

جن خواتین کو کام پر جانے سے روک دیا گیا ہے انھوں نے بی بی سی کو اپنے خوف اور بے بسی کے بارے میں بتایا۔

ایک نے کہا کہ وہ اپنے گھر کی واحد کفیل ہیں اور پوچھا ’اگر میں اپنی ملازمت پر نہیں جا سکتی تو میرے خاندان کی کفالت کون کر سکتا ہے؟‘

ایک اور کہا کہ انھوں نے تو طالبان کی جانب سے خواتین کے لباس کی پابندی کو بھی اپنایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ خبر چونکانے والی ہے۔’میں الجھن میں ہوں کہ میری زندگی کا کیا بنے گا‘

ایک تیسری خاتون نے طالبان کی ’اسلامی اخلاقیات‘ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اب وہ اپنے بل ادا کرنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کریں گی۔

ایک اور خاتون ’دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے اور کچھ نہیں کر رہی،‘

بی بی سی خواتین کے نام ان کے تحفظ کے لیے شائع نہیں کر رہا ہے۔

سنیچر کو جاری حکم وزارت اقتصادیات کی طرف سے قومی اور بین الاقوامی این جی اوز کو لکھے گئے ایک خط میں جاری کیا گیا۔ طالبان کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ اس فیصلے کا اطلاق اگلے نوٹس تک رہے گا۔

تاہم، یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ آیا اس سے اقوام متحدہ کے اداروں پر اثر پڑے گا، جن کے ملک میں امدادی اور ترقیاتی منصوبے بڑی تعداد موجود ہیں۔

خط میں دھمکی دی گئی ہے کہ حکم نامے پر فوری عمل نے کرنے والی تنظیم کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔

اگر این جی اوز کو اب صرف مردوں کو ملازمت دینے کی اجازت ہے تو ایسا لگتا ہے کہ افغان خواتین براہ راست امداد حاصل کرنے سے قاصر ہوں گی۔

خدشہ ہے کہ یہ ایسے ملک میں بچوں کی اموات جیسے بڑے مسائل کو مزید خراب کر سکتا ہے جہاں صحت کی دیکھ بھال کے لیے غیر ملکی فنڈنگ ​​اب ختم ہو چکی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیائی شاخ نے اس پابندی کو ’افغانستان کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مقامات سے خواتین کو مٹانے کی ایک اور افسوسناک کوشش‘ قرار دیا۔

ایک امام جن کی شناخت بی بی سی ظاہر نہیں کر رہی نے کہا کہ طالبان ’کسی اسلامی قدر پر عمل نہیں کررہے۔‘

انھوں نے وضاحت کی ’اسلام نے یہ نہیں کہا کہ مرد تعلیم دے سکتے ہیں اور عورتیں نہیں کر سکتیں۔ یا مرد کام کر سکتے ہیں اور عورتیں نہیں کر سکتیں۔ ہم اس فیصلے کے بارے میں الجھن میں ہیں۔‘

اس ہفتے کے اوائل میں افغان یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی کی بھی اسی طرح کی مذمت کی گئی۔ یہ پابندی مظاہروں کا سبب بنی، سنیچر کو ہرات میں بھی مظاہرے ہوئے جنہیں فوری سے دبا دیا گیا۔

گذشتہ سال ملک پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے، طالبان نے خواتین کے حقوق کو مستقل طور پر محدود کر رکھا ہے – اس وعدے کے باوجود کہ ان کی حکمرانی 1990 کی دہائی میں نظر آنے والی حکومت سے زیادہ نرم ہوگی۔

زیادہ تر صوبوں میں لڑکیوں کے سیکنڈری سکول بند ہیں۔ خواتین کو دیگر عوامی مقامات کے علاوہ پارکوں اور جمز میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔